ایک معصوم انتقام کے کنارے

ایک معصوم انتقام کے کنارے
رات مہمان ہوا وادیِ دل میں کوئی
بعدمدت اسے دیکھا ہم نے
وہ جو آنکھوں میں رہا کرتا تھا
وہ جو سپنوں میں بسا کرتا تھا
آج اس شہر کی دہلیز پر آیا تو جھجکتا ہوا محسوس ہوا
اس طرح بھی تو ہوا کرتا ہے
بستیاں چھوڑ کے جانے والے
لوٹ کر آئیں تو رستوں سے ڈرا کرتے ہیں
حادثے درد کی بنیاد ہوا کرتے ہیں
ہم نے دیکھا کہ وہ اس شہر کی نکڑ پہ کھڑا سوچتا ہے
کیا خبر کوئی شناسا ئی ملے یا نہ ملے
کیا خبر کوئی پذیرائی ملے یا نہ ملے
کیا خبر
اجنبی بن کے ملیں سارے پرانے ساتھی
اور نئے لوگ، نئے لوگ ہوا کرتے ہیں
وہ تذبذب سے ذرا آگے بڑھا وادی میں
اور پھر چونک اٹھا
اس نے دیکھا کہ نہ پہلی سی وہ رونق ہے نہ حالت کوئی
جیسے کرتا ہی نہ ہو اس کی کفالت کوئی
رات پھیلی ہوئی ہر سمت
دعائیں خاموش
عہد بکھرے ہوئے ہر سمت
وفائیں خاموش
وقت اجڑا ہوا
سویا ہوا ماحول
ہوائیں خاموش
گویا اک حادثہ ِعہدِ وفاداری میں
شہر کا شہر ہی ویران ہوا
وہ کہ حیران وپریشان ہوا
وہ کہ حیران و پریشان ہوا شہر کی ویرانی پر
ہم بہت کھل کے ہنسے اس کی پریشانی پر
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *