ایک نئی رات جاگ رہی تھی

ایک نئی رات جاگ رہی تھی
پھر ایک رات
اس کے اندر پہلا چراغ جلا
دکھ کو طاقت بنا لینے کا چراغ
اور جدائی کو ہمسفری پر تیار کر لینے کا چراغ
چراغ جلا
اور اس کی ذات نور سے بھر گئی
اسے وہ لوگ بھی نظر آنے لگ گئے
جو اپنے اپنے قیمتی کپڑوں میں اپنے اپنے ناسور چھپائے پھرتے تھے
اسے وہ لوگ بھی نظر آنے لگ گئے
جو اپنے اپنے کچے مکانوں میں
اپنے اپنے بھرم چھپائے پھرتے تھے
چراغ جلا
اور محبت بیدار ہوئی
اور بیدار ہو کے بلند ہو گئی
اور بلند ہو کے پھیل گئی
ہر طرف ہر سُو
چراغ ہی چراغ جل اٹھے
روشنی ہی روشنی پھیل گئی
اس نے سنا کوئی کہہ رہا تھا
تمہی تو مرکز تھے
تم سے ٹوٹا
اور کائنات میں بکھر گیا
اس نے پھر سنا
یہ تمہاری محبت ہی ہے
جو آنکھوں میں چاند
اور دل میں چاند
اور دل میں چہرے
اور روح میں سکھ کی خواہش
سجائے پھرتا ہوں
کوئی اس کے اپنے اندر ہی سے بول رہا تھا
کوئی بول رہا تھا
اور وہ سمجھ رہا تھا
بڑی آسانی سے سمجھ رہا تھا
کیونکہ اب وہ لڑکا نہیں رہا تھا
جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھ چکا تھا
اس دہلیز پہ، جہاں ساری باتیں نا بھی سمجھ آئیں
لیکن کچھ نہ کچھ ضرور سمجھ آ جاتی ہیں
وہ سمجھ رہا تھا
سردیوں کی دھوپ کی تمازت
اور گرمیوں کی صحرائی رات
لذت خیز حدت اور نشاط خیز خنکی
وہ دہکتی ہوئی ریت
اور سن کر دیتی
یخ بستگی کا عادی تھا
نئے موسم اسے نئی کیفیتوں سے روشناس کرا گئے
اس نے اپنی روح پر پڑی ہوئی گرد جھاڑی
اور پہلی بار اِرد گرد کو ایک نئی
اور مخصوص نظر سے دیکھا
اس نے یہ بھی دیکھا
سرابی کی محبت تہہ در تہہ شکلیں بدل رہی ہے
ایک جہاں بدل رہا تھا
ایک نئی صبح انگڑائی لے رہی تھی
ایک نیا سورج طلوع ہو رہا تھا
ایک نئی رات جاگ رہی تھی
اور ایک نیا چاند چمک رہا تھا
اس نے بڑی حیرت سے سب کچھ دیکھا
اور خوفزدہ ہو گیا
یہ سوچ کر، کہ وہ اپنے اندر کیسے جھانکے
یہ سب کچھ ہے
تو پھر پرانا سب کچھ کہاں ہے
وہ بھی تو گیا نہیں
وہ بھی تو ختم نہیں ہوا
وہ بھی تو موجود ہی ہے
ایک خاموشی
ایک شور مچاتی ہوئی خاموشی
ایک سکوت، ایک بلبلاتا ہوا سکوت
ایک سناٹا،
ایک ویران سناٹا،
اور دھند، گہری اور پیلی دھند
جیسے کسی نے بہت سارے خزاں رسیدہ پتوں کو بارک پیس کے
ہوا میں اڑا دیا ہو
اور سرابی کہیں دور سے کچھ پڑھ پڑھ کے پھونکتی سرابی
بہت دور سے بازو لہرا لہرا کر کچھ کہتی سرابی
سر اٹھا اٹھا کر آسمانوں کی کی طرف تکتی سرابی
سرابی اور روح کے کسی خلا میں گم ہوتی سرابی
سرابی اور چراغ،
چراغ اور سرابی
وہ ہنس پڑا
پھر رو دیا
روتے روتے پھر ہنس دیا
ہوا نے کہا پاگل
ہوا نے اسے پاگل کہا
اور وہ لکھنے بیٹھ گیا
اگر یہ پاگل پن ہے
تو دنیا کی سب سے بڑی سچائی
اور حکمت بھی پاگل پن ہے
پھر یونہی ہنستے روتے جانے کب
نیند نے اس کی آنکھوں پہ اپنے لب رکھ دیے
وہ سو گیا
وہ سو گیا
اور ایک نئی بیداری شروع ہو گئی
خوابوں اور سپنوں کی بیداری
اس نے دیکھا، ایک پہاڑ ہے
اور اس کے دل پہ پڑا ہے
ایک سورج ہے
اور اس کی آنکھوں پہ دھرا ہے
ایک صحرا ہے
اور اسکی پیشانی پہ جڑا ہے
ایک فاصلہ ہے اور اسکے سینے میں گڑا ہے
ایک دیوانہ ہے
اور اس کے سامنے کھڑا ہے
اور روئے جا رہا ہے، روئے جا رہا ہے
اس نے دیوانے کے آنسو پونچھنا چاہے
اس کی انگلیاں پتھر کی ہو گئیں
اس نے دیوانے کو دلاسہ دنیا چاہا
اس کی گویائی جاتی رہی
اس نے دیکھا
وہ دیوانہ، وہ خود ہے
اور کسی صلیب پہ مصلوب ہو چکا ہے
اور فضا میں معلق ہے
اس کے گرد لاکھوں لوگ سیاہ علم اٹھائے
ایک دوسرے کو دلاسے دے رہے ہیں
اور سب کے سب دیوانے ہیں
پھر اس نے ہر دیوانے کو غور سے دیکھا
اور چونک گیا
ان میں سے ہر ایک کے کپڑے میلے ہیں
اور پاؤں گندے
اور ان میں سے ہر ایک کی، ایک اپنی سرابی ہے
جو اجلے لباس والوں کے ساتھ کہیں جا رہی ہے
کہیں بہت دور
بہت ہی دور
بہت ہی دور
وہ تڑپا اور تڑپ کے بیدار ہو گیا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *