میں تری ذات کے حصار میں ہوں
ہونے دیتی نہیں بلند مجھے
اتنی حاجات کے حصار میں ہوں
سوگ میں ہوں میں اپنی قسمت کے
اپنے حالات کے حصار میں ہوں
تیرے بارے میں زندگی بھر سے
میں تو جذبات کے حصار میں ہوں
اس لیے بھی تو مانتا ہوں تجھے
میں عنایات کے حصار میں ہوں
میری نظریں ہیں اس کے چہرے پر
چاندنی رات کے حصار میں ہوں
دیکھنے سے نظر نہیں آتی
ایسی برسات کے حصار میں ہوں
ہوں مسلسل اداسیوں میں گھرا
اور خیالات کے حصار میں ہوں
یوں بسا ہوں تمہاری خوشبو میں
جیسے باغات کے حصار میں ہوں
کس طرح آپ تک پہنچ پاؤں
خاک اور دھات کے حصار میں ہوں
مستقل میں بھی تو مرے مولا
اپنے اثبات کے حصار میں ہوں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – روز ہوں گی ملاقاتیں اے دل)