آئے تھے بہت آگ کے دریا سے گزرنے

آئے تھے بہت آگ کے دریا سے گزرنے
اس دن سے کئی شہر کنارے پہ ہیں آباد
ہم تیرے لیے خون کے دریا سے گزر آئے
گو خون بھی اپنا تھا گزر گاہ بھی اپنی
اک بیتے ہوئے دکھ کا سرا تھام کے اکثر
اس دل کی طرف کھینچتی رہتی ہے جدائی
نکلے تھے محلّے سے پتنگوں کو پکڑنے
وہ دن ہے کہ ہم آج تلک گھر نہیں لوٹے
ساون کے مہینے کی تو بس ساکھ بنی ہے
بادل ہوں تو برسات بھلا کب نہیں ہوتی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – محبت گمشدہ میری)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *