اب کے شاید دل نے ٹھانی اور ہے
نت نیا پہلو بدلتے ہیں نصیب
نت نئے دن ناگہانی اور ہے
بے نشاں ملتا ہے اس کا ہر نشاں
ہاں مگر یہ بےنشانی اور ہے
اور ہی کچھ کہہ رہے ہیں حکمراں
شہر کی اپنی کہانی اور ہے
جانتے ہیں ہم رموزِ گفتگو
اور ہے چُپ، بے زبانی اور ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)