ذات آسان ہو گئی اپنی
آ گیا چل کے خود عدو نزدیک
گھات آسان ہو گئی اپنی
اس نے بھی اپنا جرم مان لیا
بات آسان ہو گئی اپنی
آنکھ نے چھو لیا اسے جا کر
رات آسان ہو گئی اپنی
جیتنے والا ظرف والا تھا
مات آسان ہو گئی اپنی
وہ سمجھ آنے لگ گیا کچھ کچھ
ذات آسان ہو گئی اپنی
تیز جھونکے کواڑ کھول گئے
جھات آسان ہو گئی اپنی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)