بات بے بات نہ جانے کیونکر

بات بے بات نہ جانے کیونکر
بات بے بات نہ جانے کیونکر
دل دہل جاتا ہے
حادثہ کوئی تو پوشیدہ ہے
دل کے اندر
کسی گیرائی یا گہرائی میں
خشک آنکھوں سے رُلاتا ہے ہمیں
واقعہ کوئی بھی ہو
درد کی سرگرمی کا
ہم تو یونہی کسی بہلاوے میں آجاتے ہیں
آپ ہی آپ غموں کے مارے
دل دہل جانے کے موسم سے
بھلا کون کہے بیت چکو
اب تو تم بیت چکو
حادثہ کیوں نہیں ہو جاتا ہے ظاہر
جو ہے پوشیدہ کہیں
خشک آنکھوں کا چھلکنا کوئی آسان نہیں
خون سے آتا ہے نم
رنج و الم
بات بے بات نہ جانے کیونکر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *