تمہارے ساتھ بتائی ہوئی بارش
اور وہ بھی جو تمہارے بغیر بیت گئیں
میرے اندر برستی رہتی ہیں
مسلسل اور مستقل
میرے اندر بہت ساری آرزوؤں کے در و دیوار
اور سپنوں کے محل مسمار ہوتے جارہے ہیں
وہ پیڑ جو پہلے دھل گئے تھے
اب مرجھاتے جا رہے ہیں
بہت سارے ایسے راستے بند ہو چکے ہیں
جن پر کبھی کوئی جگنو اور کوئی تتلی
تمہاری طرف سے میری طرف
یا میری طرف سے تمہاری طرف
آتے جاتے تھے
مجھے پتہ ہے میری بنیادوں میں رفتہ رفتہ
پانی اترتا جا رہا ہے
نہ جانے تمہیں پتہ ہے کہ نہیں
تمہیں یاد ہے بارش ہمیں بہت رلایا کرتی تھی
کھڑکیوں کے شیشوں سے ایک دوسرے کو دھکا دے کر
نیچے پھسلائے ہوئے قطرے
اور رخساروں پر لکیریں کھینچتے ہوئے آنسو
اور ہم دونوں کے درمیان ایک بھیگی ہوئی خاموشی
یہ سب کچھ بیک وقت ہو جاتا تھا
اب تمہارے بغییر بیتی ہوئی بارش
تمہارے ساتھ بیتی ہوئی بارش سے زیادہ رلاتی ہے
اور کہیں کوئی راستہ کھلا نہیں رہنے دیتی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)