بھاگتے چھپتے
وجود تو تقسیم ہو سکتا ہے
اور شاید ہو بھی گیا ہو
روح کا کیا کروں
کیسے بانٹوں
کیسے ٹکڑے ٹکڑے کروں
ہر کوئی اپنے اپنے آئینے کے سامنے کھڑا ہے
جھُولے اور دھندلے آئینے کے سامنے
میرے اندر پڑنے والی دراڑیں کیسے دیکھے
اسے میری کرچیاں کیسے نظر آئیں
میری آنکھوں میں اٹکتی
میری شریانوں میں دوڑتی ہوئی کرچیاں
کچھ دیکھ سکتے تو میری تقسیم کی خواہش نہ پالتے
پاگل
جانتے ہی نہیں
وجود تو تقسیم ہو سکتا ہے
اور شاید ہو بھی گیا ہو
روح نہیں ہو سکتی
اگر چاہوں تو بھی
فرحت عباس شاہ