کون اس جا سے گیا آزردہ
تم نہیں ہو تو بھری بستی میں
پھرتی رہتی ہے ہوا آزردہ
کون کہتا ہے کہ ہو جاتا ہے
دل کے ہونے سے خدا آزردہ
اے دل زار مسائل کیا ہیں
تم کو دیکھا ہے سدا آزردہ
میں نے پوچھا مری جاں کیسے ہو
اس نے ہولے سے کہا آزردہ
اپنی پہچان یہی ہے اب تو
سخت بے چین، خفا، آزردہ
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)