تم۔۔۔۔
کہاں سے آگئی ہو
رات کو سینے لگانے
رات کرنوں سے تہی
کتنے پرائے اور بیچارے ستاروں کی وفا پر مطمئن
اور ہماری خود فریبی کی طرح مہتاب دامن میں سمیٹے خامشی سے بین کرتی ہے
تم ان خاموش بینوں میں ہمارے خون کے آنسو ملانے آگئی ہو
ہجر گو دشمن نہیں ہوتا
مگر خوشیوں سے حاسد ہے
جدائی جو کئی صدیوں سے میری ذات کی تقدیر کے حصے میں آئی ہے
تم اس کے زخم کی ٹیسیں بڑھانے آگئی ہو
کیوں بھلا
آخر بتاؤ تو
ادھر میں بھی عجب ہوں
جیسے مدت سے تمہارے راستے میں بیٹھ کر زخموں کو تھپکی اور تسلی دے رہاتھا۔۔
آئے گی اک دن
ضرور آئے گی، اک دن وہ مجھے پھر سے نیا اک غم لگانے
اور مرا ایمان دیکھو آگئی ہو، آگئی تم
نہ جانے کیوں اچانک ہی کہیں سے آگئی ہو تم
کہاں سے آگئی ہو تم
بتاؤ تو سہی آخر
فرحت عباس شاہ