بجھ گئی آس تو پھر کوئی اُجالا نہ رہا

بجھ گئی آس تو پھر کوئی اُجالا نہ رہا
شام کے بعد کوئی لوٹنے والا نہ رہا
بس گیا جا کے کہیں دُور وہ آوارہ مزاج
دَر کھلا رکھنے کا کوئی بھی حوالہ نہ رہا
ہو گئے پست سبھی حوصلے دیوانے کے
آنکھ بھی سہم گئی دل بھی جیالا نہ رہا
نہ رہا جب سے مرے گرد ترے غم کا طواف
چاند کے گرد کہیں چاند کا ہالہ نہ رہا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *