غموں نے چاٹ لیا، غمگسار اب آئے
یہ وقت اس طرح رونے کا تو نہیں، لیکن
میں کیا کروں کہ مرے سوگوار اب آئے
وہ دھوپ دھوپ ہی میں ہو گیا بسر چپ چاپ
شجر شجر پہ مرے برگ و بار اب آئے
وہ جن پہ دھوکہ سا جھیلا تھا ہم نے منزل کا
وہ قافلے تو سرِ راہ گزار اب آئے
نہ ڈالیوں پہ کوئی پھول ہے نہ ہونٹوں پر
مزہ تو جب ہے کہ بادِ بہار اب آئے
فرحت عباس شاہ