لمس کا پہلا لمحہ
جس دن تمہیں چھوا تھا
روح میں سوئی وئی معصومیت کس قدر کسمسائی تھی
کہیں دور سکھ کے احساس کی ہتھیلی پر ایک آنسو گرا تھا
ایک بار معصومیت جاگی تھی
لوگ اسے جان سے مار دینے پر تُل گئے تھے
سہم کے روح میں دُبک گئی
اور دُبک کے سو گئی
سکھ کے احساس کی ہتھیلی پر گرا ہوا آنسو میں نے سنبھال کے
رکھ لیا ہے
کسی دن تمہارا کاجل بھگوؤں گا
اور بہت سارے آنسو جمع کروں گا
اور پھر سوئی ہوئی معصومیت کے چہرے پر چھینٹے ماروں گا
وہ بیدار ہو گی
اسے لے آؤں گا اور لا کر تمہارے
دل کے پنگھوڑے میں لٹا دوں گا
جہاں تمہاری پاکیزگی رہتی ہے
وہاں دونوں اکٹھی رہیں گی
فرحت عباس شاہ