بکھر گئے سب خواب اچانک بے خبری میں

بکھر گئے سب خواب اچانک بے خبری میں
گزرا عین شباب اچانک بے خبری میں
اچھی خاصی ہری بھری شاخیں تھیں لیکن
پھوٹے زرد گلاب اچانک بے خبری میں
مُہلت مل جاتی تو ہم بھی چھُپ جاتے
برسے آن سحاب اچانک بے خبری میں
کیسے دور اندیشی ممکن ہو سکتی تھی
نازل ہوئے عذاب اچانک بے خبری میں
اس کا کیا ہے کسی بھی لمحہ ہو سکتا ہے
کر دے ختم حجاب اچانک بے خبری میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *