بقا

بقا
ہم کو یہ بھی گوارا نہیں
کہ کوئی امتحاں بھی نہ باقی رہے
خواب کے نا تراشیدہ ٹکڑے
جو نیندوں کی یخ انگلیوں میں پھنسے
تو شبِ تار گھبرا اُٹھی
رات بھر چاند اپنی پریشان سوچوں پہ سر رکھ کے سویا رہا
تو کئی رازداں بھی نہ باقی رہے
ہم کو یہ بھی گوارا نہیں
ہم جو پاگل نہیں
بس ذرا مختلف ہیں زمانے کے معمول سے
پتھروں کے کناروں سے لمسِ بدن
اور ہوا سے شناسائیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
خاکِ راہ طلب ہوں
تو کوئی نشاں بھی نہ باقی رہے
آسماں ہی نہ باقی رہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *