رات! ایسے نہ گزر
رات! ایسے نہ گزر
ٹھیر
ذرا ٹھیر مجھے ملنے دے
اس کی آواز کی پرچھائیں سرِ کوچہِ دل راستہ بھول آئی ہے
اس کے آباد بدن کی رونق
دشتِ احساس میں لہرائی ہے
اس کے ماحول کی بھینی خوشبو
آ کے خاموشی سے مُسکائی ہے
رات! ایسے نہ گزر
اک ذرا ٹھیر
مجھے ملنے دے
میرے اجڑے ہوئے باغیچے میں
کوئی تو پھول کبھی کھلنے دے
کوئی تو زخم کبھی سلنے دے
اک ذرا ٹھیر
مجھے ملنے دے
رات! ایسے نہ گزر
فرحت عباس شاہ