بات بھی بوجھ بڑھا دیتی ہے
خاموشی بھی
ایک الجھے ہوئے گمنام تعلق کی سزا
کرب کی دہری سلامی کے طفیل
بات سے ذات تک آ پہنچی ہے
یہ تو پھر ہوتا ہے
چیخ گھٹ جائے تو چبھ جاتی ہے
دور اترت ہوئے زخموں میں کہیں
وصل کے خواب کی آسائش میں گزارے ہوئے پل
نیند آجانے سے پہلے ہی لڑھک جاتے ہیں
کسی ٹھکرائے ہوئے غم کی طرح
بات بھی بوجھ بڑھا دیتی ہے، خاموشی بھی
بات کا خوف تھا
خاموشی کی ویرانی تھی
دور تک ایک بیابانی تھی
درد کی من مانی تھی
بوجھ تھا
بوجھ ہی تھا
دور تلک بوجھ ہی تھا
فرحت عباس شاہ