بوڑھا اور صدیوں پرانا لڑکا

بوڑھا اور صدیوں پرانا لڑکا
بس سوچتا رہتا
کبھی کہہ نہ پاتا
انا جیت جاتی
وہ ہار جاتا
ہمیشہ ہار جاتا
یہ ہار۔ یہ شکست تو پہلے ہی دن سے تھی
تب بھی تھی، جب بچہ تھا
تب بھی تھی، جب وہ لڑکا بنا، دبلا پتلا سا لڑکا
میلے کپڑوں اور گندے پیروں والا لڑکا
گلی محلے میں کینچے اور فٹ بال کھیلنے والا لڑکا
لیکن محبت میں خاص
بہت ہی خاص
بوڑھا اور صدیوں پرانا لڑکا
جس کے اندر کوئی مدتوں پرانا شہر آباد ہو
اضطراب اور بے قراری کا شہر
کرب اور کرب سے سرشاری کا شہر
وہ لڑکا گھر سے باہر نکلتا
تو دوسرے کہتے
میلے کپڑوں والا لڑکا آیا ہے
اور اگر کبھی اچھے کپڑے پہن کے نکلتا
تو صرد کپڑے دیکھے جاتے
اور سبھی کپڑوں کا ہی پوچھتے
وہ زرد پڑ جاتا
بیمار ہو جاتا
اور سرابی کی طرف دوڑتا
جہاں کوئی نہ کوئی قیمتی کپڑوں والا موجود ہوتا
جسے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ایک بھاری تاریکی اتر آتی
اور آنکھوں سے ہوتی ہوئی اس کے دل میں اترنے لگتی
وہ نڈھال سا ہو جاتا
لاغر اور بے حال
اور سرابی کہتی، پھر آنا
وہ لوٹ جاتا
وہی شکست،
وہی ہار،
وہی ٹوٹ،
وہی کرب،
وہی عذاب،
سارا کچھ وہی،
اپنی مضمحل روح میں سمیٹے لوٹ جاتا
لوٹ جاتا اور فیصلہ کرتا،
آئندہ کبھی نہیں آئے گا،
کبھی بھی نہیں،
وہ فیصلہ کرتا
اور بیمار پڑ جاتا
شدید بیمار،
اتنا، کہ موت کو چھو آتا،
لیکن مرتا نہیں تھا،
ہر بار جی اٹھتا،
شاید اسی انا اور اسی ضد کے ہاتھوں،
مجبور ہو جاتا
محصور ہو جاتا
نفرت میں، احساس کمتری میں،
محرومی میں،
بے چارگی میں اور غریبی میں،
اسے غریبی سے نفرت تھی،
وہ سوچتا
لڑکے مجھے اپنے ساتھ کھیلنے کیوں نہیں دیتے،
ان کی ماں باپ انہیں مجھ سے دور کیوں رکھتے ہیں
کیا بیمار اتنے ہی برے ہوتے ہیں،
اتنے ہی گندے ،
پھر میں بیمار کیوں ہوں،
وہ سوچتا
لیکن کسی سے پوچھتا نہیں
بس سوچتا اور دکھی ہو جاتا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *