سوچا تو بچھڑنے کا سبب کچھ بھی نہیں تھا
اس بخت میں اب لاکھ زمانہ تجھے چاہے
ہم نے تو تجھے چاہا، تُو جب کچھ بھی نہیں تھا
تو نے مری جاں جھانک کے دیکھا نہ تھا دل میں
چہرے پہ جو تھا وہ تو غضب کچھ بھی نہیں تھا
جو مجھ سے فقیروں کے دلوں میں تھا وہی تھا
لوگوں نے جسے پوجا وہ رب کچھ بھی نہیں تھا
فرحت جو کوئی بھی تھا کہاں سے تھا بس اس کا
اک عشق سوا نام و نسب کچھ بھی نہیں تھا
فرحت عباس شاہ