اندر اندر زنگ لگا دیتی ہے دل کو
تیرے ساتھ زمانہ ہے اور میرے ساتھ
کبھی کبھی تو لگتا ہے بس میں ہی ہوں
آخر کیونکر میرے دل میں آن بسے ہو
تم نے ایسی ویرانی میں کیا دیکھا ہے
سندر سندر گیتوں کے عادی کانوں میں
کیوں نوکیلی آوازیں ٹپکاتے ہو
عشق عجیب مسافر ہے ویرانہ دل کا
قدم قدم پہ رکھ کے شہر بسا دیتا ہے
رات تو اکثر میرے دل میں آجاتی ہے
تم بھی کبھی اس ویرانے میں آ جاؤ نا
سورج سورج آنکھوں والوں سے کہہ دینا
ہم بے نور چراغوں کے نیچے بیٹھے ہیں
فرحت عباس شاہ