بربادی آئے تو مزا بھی آئے
ہمارے پاس آخری بربادی سے پہلے تک کے لیے کچھ ہے ہی نہیں تو خوف کیسا
آخری بربادی بھی آ کے دیکھ لے
آبادی ہی ثابت ہو گی
جب کوئی کسی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا تو کہتا ہے!
آؤ اپنی اپنی کچھار میں لوٹ چلیں
اور لوٹ جاتا ہے
ہم اس آخری والی کی کچھار میں بیٹھے راستہ تکتے ہیں
ٹانگیں پسارے
انگلی پہ تالا گھماتے
زیر لب کچھ گنگناتے
اور سوچتے ہوئے
کہ بربادی آئے تو مزا بھی آئے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)