بے شمار ایسے مقامات ہیں ویرانوں میں

بے شمار ایسے مقامات ہیں ویرانوں میں
جن میں گزری ہوئی صدیوں کا سفر رہتا ہے
ہم جہاں پھرتے ہیں مارے مارے
ہم کبھی پھر ہی نہیں سکتے علاوہ اس کے
خاک کے بطن سے نکلے ہوئے خال و خد میں
ان گنت مسلے گئے پھولوں کی رعنائی تو ہے
ٹھیک شناسائی نہیں
ہم نے اندیکھی فضاؤں کو رکھا ہے گروی
جانے کس فکر کے پاس
عالم علم ادھورا ہی رہا کرتا ہے
راستے یاد نہ رہتے ہوں تو بستی میں بھٹکنے کی ضرورت ہی نہیں
مٹیاں شکلیں بناتی ہیں اگر
تب تلک کوئی بھی پہچانی نہیں جا سکتی
جب تلک آنکھ میں تصویر کی تصویر نہ ہو
دل سے ہو ہو کے گزرتا ہے کوئی عکس تو پرچھائیں
کا رہ جاتا ہے بے رنگ نشان
وصل کے خانے بناتے ہوئے آ جاتا ہے ملنے کا ہنر
وقت کے ساتھ مسائل بھی بدل جاتے ہیں
وقت کے ساتھ تو پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *