بے غرض تو در و دیوار بھی رہ سکتے ہیں

بے غرض تو در و دیوار بھی رہ سکتے ہیں
ہم ہو سناک زمانوں کی غلامی میں گھرے ہیں کب سے
جب سے ایمان پہ مشکوک خیالات کی بوچھاڑ ہوئی
دل اکھڑتے ہی طنابوں کا بھرم ٹوٹ گیا
کتنے الزام لگا پائیں گے ہم خود ل پر
ایک دن تھک کے پلٹ جائیں گے
بے ضمیری کی علامات ہوئیں گم گشتہ
ایک دن، دن بھی سمٹ جائیں گے راتوں کی طرح
رات تاریک نہ ہوتی تو بھلا کیا ہوتی
زرد راتیں تو پس چشم کہیں ہوتی ہیں
آنسوؤں اور ستاروں کے قریب
دھوپ سو رنگ میں پھیلی ہے بہت تیزی سے
اور بہت تیزی سے پھر سمٹی ہے
روزنی پھیلی نہیں سمٹی نہیں
رات رک رک کے رکی بالاخر
ٹمٹماتے ہوئے دکھ حرف تسلی کی طرح
دل کو دیتے ہیں ہوا دامن کی
دو گھڑی چین میں آتی ہے فضا
کھیل تو ہے ہی فقط لمحون کا
منتخب کر لیے تو کر ہی لیے
اور جو کھوئے تو بس کھوئے گئے
اپنے ہی آپ کو ہم نوچتے ہیں
جب بھی کبھی سوچتے ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *