دستِ مفلوج میں تلوار پڑی رہتی ہے
موت اور ظلم کی خبروں سے تو یہ لگتا ہے
میز پر ایک ہی اخبار پڑی رہتی ہے
گہما گہمی میں زیادہ نظر آتی ہے اجل
زندگی تو پس دیوار پڑی رہتی ہے
تیرے بن دن بھی ہے مرجھایا ہوا رہنے لگا
تیرے بن رات بھی بیمار پڑی رہتی ہے
خواہش وصل کو پڑھنے کا اسے وقت کہاں
یہ مری آنکھ میں بے کار پڑی رہتی ہے
جاہ، جاگیر و حشم لوگ چھپا جاتے ہیں
مفلسی تو سر بازار پڑی رہتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)