راستہ یاد کریں
زخموں کے اس جنگل کا
اس زمانے کا کہ جب راکھ پہ اگ آتے ہیں اشجار کسی بکھری ہوئی وحشت کے
وہ نیا گھاؤ جو لگنا ہے ابھی وقت کی پیشانی پر
خواب کملائی ہوئی آنکھوں کے آزار ہوا کرتے ہیں
جو تمنا دلِ بیمار کی دہلیز پہ مر جاتی ہے
روزن جاں پہ بلکتی ہوئی دھر جاتی ہے۔۔۔بے سبب اجڑا ہوا افسانہ
ہم کہانی کے وہ کردار نہیں ہیں جو کسی شہر ستم گر کے طفیل
دید کے شوق میں بینائی گنوا بیٹھے ہیں
ہم تو ان سے بھی سوا ہاتھ کی خاموشی پہ ہیں
ہم نے تو الجھے ہوئے دھاگوں پہ ایمان کی بنیاد رکھی
ہم نے ہر قافلہ سالار سے پوچھا۔۔۔ کہ یہ منزل کیا ہے؟
اور وہ گھبرا کے وہیں ٹوٹ گیا
آسماں کالے نظر آئیں گے اک روز
اگر خوف نے شریانوں کو پنجوں میں دبائے رکھا
حادثاتِ غمِ بے مائیگی اب اونچا کئے دیتے ہیں
دیواروں کو
جس نے شہ رگ پہ بٹھا رکھا ہے تلواروں کو
ایک دن ہجر کی ویران حویلی پہ بھی پہرہ دیگا
آنسوؤں نے کسی صحرا میں سفر کیا کرنا
ہم جو دروازے سے لوٹے ہیں تو گھر بھول گئے
شہر اک روز ہمیں ہم سے چرا بھاگے گا
ہو نہ ہو اب یہی رستہ ہے کہ ہم
راستہ یاد کریں
ہم اٹھائیں کسی دریا کو نگاہوں سے کہ صحرا کو
یہ تفریق نہیں
اپنے احساس کی پلکوں سے بندھا درد گرا آئیں کسی کنوئیں میں
روشنی اذن بصارت پہ نہیں ہے مامور
تیرگی روز کے معمول سے ہٹتی ہی نہیں
آنکھ نے پھر اسی گمشدگی پہ لا رکھا ہے اک خواب کا خواب
خواب بھی وہ
کہ جسے بانجھ ہوا نے ڈھونڈا
شور تقسیم نہ ہوتا تھا مگر ہم نے کیا زرد سماعت کے سبب
ہم کو تو گیت بھی اب یاد نہیں
وہ جو مٹی سے جڑے ہوتے ہیں
جو سمندر پہ جڑے ہوتے ہیں انمول نگینوں کی طرح
ریتلے رزق نے جس طرح بدن توڑے ہیں
اپنے رازق سے گلہ کون کرے
چھین لے جائے گی بے چین ہوا ماتم بھی
اور ہم لوگ ترس جائیں گے اشکوں کے لئے
کارخانوں میں ڈھلی فکر سفر چاٹ گئی
اب دھواں بکتا ہے اور بیچنے والے ہیں بہت
آکسیجن کے سلنڈر تو پڑے ہیں خالی
رات کی کوکھ میں لیٹی ہوئی برہا کی طرح
دن کسی بخت کے مارے کی تسلی کے لیے
کب تلک صاف نظر آئے گا
دل کسی گاڑی کے میٹر کی طرح
صرف رفتار بتانے کے لیے باقی ہے
بین کرتی ہیں گھٹائیں کہ کہاں جا برسیں
اب تو موسم کی بھی شاپنگ ہو گی
کون رت، کون سی برسات خریدیں گے حضور
وقت کا کونسا پہلو ہے وفا کو درکار
کسی پیمان کی غربت کا جنازہ لے کر
اک ہجوم آئے گا بستی میں کسی جانب سے
اور پڑھی جائے گی مایوس عقیدوں کی نماز
اور سنا جائے گا اک خطبہِ غم دل کی عزاداری میں
سلطنت دھول میں اٹتی ہوئی آتی ہے نظر
پھول اب یار نہیں قیدی ہیں
اپنی مرضی سے نہ اگتے ہیں نہ مر سکتے ہیں
مستقل بھول۔۔۔ ہمیشہ کی فراموشی میں ملتا ہے علاج
خود فریبی سے بڑا رنج کوئی کیا ہو گا
روگ لگ جاتا ہے جیسے کسی بے چارے کو
ہم پہاڑوں کی تجارت سے جو ہٹ کر سوچیں
کونسا سنگ ہمیں سکھ کی اجازت دے گا
ہجر کا سنگ کہ بیماری کا
خوف کا سنگ کہ لاچاری کا
راستہ یاد کریں
راستہ یاد کریں
ہو نہ ہو راستہ یاد کریں۔ یاد کریں۔ یاد کریں
ہم تو ایسے ہیں کہ ویرانوں میں جا کر اکثر
اپنے بھولے ہوئے وعدوں کے بھی تہوار منا آتے ہیں
ہم نے شطرنج کے خانوں میں محبت کی ہے
اور جہاں روح تھی۔۔۔ کھولی ہے دکاں پتھر کی
رقص کرتے ہوئے بازار میں احساس بچھا ڈالا ہے
فاصلہ دکھ میں ضروری تھی ہوا اور دل میں
ہم نے معدوں میں اتارے ہیں خدا کے نخرے
کیوں زمیں گول بنائی تھی جو بھٹکانا تھا
سہمی سہمی ہوئی تنہائی بلک پڑتی ہے جب دیکھتی ہے
شام کی کھڑکی کھلی رہتی ہے بے نام اداسی کی طرف
اور کوئی نظم نہیں یاد آتی
بے بسی خیمہ لگائے ہوئے بیٹھی ہے بڑی مدت سے
موت کی چاپ سے چپ ٹوٹتی ہے پل بھر کو
پھر وہی لمبی کہانی کسی دیوانے کی
ہم نے آباد کیا، ہم نے ہی برباد کیا
مختلف سوچیں دھڑک اٹھتی ہیں یکلخت مگر دل کے مریضوں کی طرح
تھرتھراتے ہیں کفن
ہسپتالوں کو بھی لرزش کا مزا آتا ہے
چین اندوہ کے پیالوں میں پنپتا ہے مگر موسمی فصلوں کی طرح
کیفیت اپنے تشخص کے لئے حسن طلب ڈھونڈتی ہے
درد کے اپنے مسائل ہیں کہ جو نام و نسب ڈھونڈتا ہے
چاند کے نام پہ اب آنکھیں چھلک جاتی ہیں
یہ تو سوچا ہی نہیں تھا ہم نے
چاند اس ذات کا بنجر ہو گا
اور ستارے بھی، خلا بھی، تم بھی
باغ بھی، باد صبا بھی، تم بھی
ہم جدائی میں ہوئے ہیں پیدا
اور اداسی نے ہمیں پالا ہے
ہم پہ ہنستی ہے خوشی
بھوک سے عشق میں آ پڑتے ہیں ہم لوگ نصیبوں مارے
عشق سے بھوک میں جا پڑتے ہیں
رائیگانی سے گرے خوف پہ ہم آ اٹکے
اور پریشانی نے پھیلایا ہوا ہے دامن
زندگی صبر کی قبروں پہ ہمیں لکھنے مٹانے میں لگی رہتی ہے
غم ہمیں حافظہ لوٹائے تو سوچیں ہم بھی
کس سے فریاد کریں
راستہ یاد کریں زخموں کے کس جنگل کا
ہم نے آوارہ مزاجی میں پناہیں ڈھونڈیں
کشتیاں ریت پہ کب چلتی ہیں
بے ارادہ کبھی بانہیں ڈھونڈیں
اور کبھی سینے میں آہیں ڈھونڈیں
زخم دریا ہیں ہمارے اندر
ہم نے گمبیر مسائل کا اڑایا ہے مذاق
ہم نے لاشوں کی سخاوت کی ہے
میّتوں کو بھی نہیں بخشا گیا سود کے بہلاوے میں
زردیاں بیلوں سے چن لائے ہیں آنگن کے لیے
اور زبوں حالی میں ڈھونڈا ہے قرار
جنگ کو لذت بے پایاں کیا ہے محسوس
چار دیواری کا صحنوں سے تعلق ہی نہیں
مورچے کندھوں پہ آبیٹھے ہیں
ہم نے جرنیل کئے ہیں پیدا، صرف جرنیل کئے ہیں پیدا
موت کے گھاٹ اتارے ہیں بہت دیوانے
ہم کہ مجنوں کے بھی دشمن ہوئے پہلے دن سے
ہم نے صدیوں کے اتارے ہیں لباس
اور چھڑکا ہے لہو سڑکوں پر
سات جنموں کے سوالات کے تابع ہو کر
ذہن کو وہم سے سنگسار کیا
آج کل سرد ہواؤں کے بھی سائے ہیں دراز
روح کے پار اتر جاتے ہیں نیزوں کی طرح
بے کلی عمر کی فرمائش تھی
قیس ہر عہد میں لاوارث ہے
دل قبیلے کا مخالف تھا ہواؤں کا نہیں
ضد لگا لی جو کسی نے تو بہت ظلم کیا
ہجر ویران مزاروں کی طرح ہوتا ہے
جب قبیلہ کسی “بے بات” پہ بٹ جاتا ہے
اور بڑھ جاتا ہے تہذیب کے ماروں کا ملال
کاش ہوتا کہ یہ تقدیر بھی رسوا ہوتی
اور یہ قسمت ہمیں روتے ہوئے کہتی بچا لو مجھ کو
کون معلوم کی جیلوں سے نکالے خود کو
ہم تو اندھے بھی نہیں پوری طرح
ہم نے آدم سے کیا تھا وعدہ
اور محمدؐ سے بھی پورا نہ کیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)