موت سے کون بھلا بھاگ سکا
یہ تو اندر ہی جنم لیتی ہے
پرورش بھی تو وہیں پاتی ہے
اور سر پر بھی رہا کرتی ہے
سائبانوں کی طرح
آسمانوں کی طرح
موت اک درد نہاں
رب کے بھی دور کہیں سینے میں
اور پھر پاس اگر ہے تو بہت پاس بھی ہے
موت اک سوز عیاں۔۔
کس پہ ظاہر نہیں یہ آتشِ بے باک یہاں
موت سے کوئی بھی محفوظ نہیں
آن لیتی ہے یہ بس پل بھر میں
اور پھر مدتوں منڈلاتی ہے
روح سے روح کے مابین ستم ڈھاتی ہے
دندناتی ہے دلوں کے اوپر
پاؤں رکھتی ہوئی معصوم تمناؤں کے غالیچوں پر
اشک پی پی کے بجھاتی ہے ہوس فطرت کی
اپنی ظلمائی ہوئی فطرت کی
درد کی ٹوٹی ہوئی دہلیزیں
دھڑدھڑاتی ہے مقدر کا حوالہ دے کر
اور ہمیں دیس نکالا دے کر
پر سکوں ہوتی ہے
موت جو کرب و بلا ہوتی ہے
انتہا ہوتی ہے
اس سے بڑھ کر ہمیں کیا لاحق ہے
فرحت عباس شاہ