خود غرض ہونا پڑا دیکھ کے بازار کا رنگ
خوں رلاتا ہے ترے بن در و دیوار کا رنگ
زرد پڑ جانا ہے اکثر ترے بیمار کا رنگ
صبح تو خون سے رنگین تھے صفحات سبھی
دیکھئے کیا ہو اب شام کے اخبار کا رنگ
جانے اب کونسی رت آئے چمن میں میرے
بند پڑتا ہے یا پیلا مرے اشجار کا رنگ
میری باتوں سے کوئی پھول کھلا ہے ان میں
کس قدر سرخ ہوا جاتا ہے رخسار کا رنگ
درد نے دل کو پچھاڑا ہے کئی بار جبھی
اب وہ پہلے سا نہیں بر سرِ پیکار کا رنگ
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جم گیا صبر مری آنکھوں میں)