دوستوں کو آزمانا چاہیے
آئینے سب کچھ دکھا سکتے نہیں
آئینوں کے پار جانا چاہیے
ان موسموں کی دھوپ میں
پھرتے پھراتے اور بدن کے سنگ در پر
دستکوں کے خوف میں ساکت کھڑے
صدیاں بِتا دیں
اور کئی صدیاں اندھیرے راستوں کے غار میں
اور سرد وحشت ناکیوں کے دشت میں پامال کیں
لیکن کہیں پہنچے نہیں ہیں
اور صدائیں دیں تو ان کی بازگشت ہی لوٹ پائی ہے
گھروں سے کوئی بھی نکلا نہیں
اور اب وہ لمحہ ہے
کہ کوئی چاہنے والا تلاشیں
اور کہیں!۔۔۔ آنکھیں ہمیں دے دو
یا ہمیں خود آپ اپنے درد کا در کھول کے
دل کے پرندے کو دعا کی چٹھیاں دے کے اڑانا چاہیے
کیونکہ ہماری جستجو کے بعد بھی ہے جستجو
اور آرزو کے بعد بھی ہے آرزو
فرحت عباس شاہ