پھر تیری یاد
راستہ بھول آئی ہے
وقت رویا ہوا چاند سابن کے ڈھلنے لگا، رت بدلنے لگی
رات بادل کے پلو میں تیری صدا باندھ کر ہاتھ ملنے لگی
پھر تیری یاد
راستہ بھول آئی ہے
دل کی دھڑکن اُداسی پہن کر لہو میں پگھلنے لگی رُت بدلنے لگی
چپ زدہ ادھ کھلے جنگلوں میں ترے نام کی شمع جلنے لگی
پھر تیری یاد
راستہ بھول آئی ہے
مدتوں سے رکی بے قراری کوئی ساتھ چلنے لگی، رت بدلنے لگی
پھر جدائی پلٹ کر بنا کچھ کہے اور سنے میری سانسیں مسلنے لگی
پھر تیری یاد
راستہ بھول آئی ہے
پھر تیری یاد
راستہ بھول آئی ہے
فرحت عباس شاہ