پھر وہی آنکھ، وہی راہ، وہی ویرانی
اے دلِ زار کوئی خواب بدل
یا کسی خواب کی تعبیر بدل
زرد رُت پلٹی ہے اس بار نئے زخم لیے
اب کے بے روپ مناظر میں زیادہ ہے نمی اشکوں کی
رنگ بدلا ہے مگر اور بھی گہرا ہو کر
دل کو بانٹ آئے ہیں ٹکڑوں میں مراسم کے لیے
اور مراسم بھی کچھ ایسے کہ نہ گہرے ہیں کہ کچھ رنگ پڑھے
اور کمزور ہیں اتنے کہ تمناؤں کے الزام میں آ کر ٹوٹیں
پھر وہی آنکھ وہی راہ وہی ویرانی
ہر طرف اجڑے ہوئے دل کا اثر ملتا ہے
اب کے لوٹے ہیں تو خواہش بھی گنوا آئے ہیں
شہر جانا بھی نہ راس آیا ہمیں
ہر کوئی اپنے مفادات لیے بیٹھا تھا
مسکراتا تھا مگر دام بھی لے لیتا تھا
اور جو روتا تھا تو قیمت لے کر
اور ادھر ہم سے تو جنگل بھی ہوا نا مانوس
اور چُبھتا ہے خیالوں میں پریشانوں کے
اور دیتا ہے عذاب
اپنے کندھوں پہ لیے خشک پہاڑوں کی تھکن
جانے کس دلدلی وادی سے گزرنا پڑ جائے
جانے کس رات کی شاخوں سے الجھنا پڑ جائے
جانے کس لمحے کے دوزخ میں اترنا پڑ جائے
پھر وہی آنکھ، وہی راہ، وہی ویرانی
گھر سے نکلے ہیں تو ہر گام پہ گھر ملتا ہے
راستے لوٹے گئے تاجر ہیں
بستیاں اجڑی ہوئی بیوائیں
وادیاں حسرتِ بیمار میں کفنائی ہوئی
ہم کسی سوچ کسی کرب کے تہ خانے سے
گر کوئی سنگ اٹھائیں بھی تو سر ملتا ہے
اور جب بھی کبھی ڈھونڈا ہے سرِ راہ تجھے
ایک حسرت زدہ ارمانِ سفر ملتا ہے
لوٹ آئے ہیں منازل سے یہی کرب لیے
پھر وہی آنکھ، وہی راہ، وہی ویرانی
اے دل زار کوئی خواب بدل
یا کسی خواب کی تعبیر بدل
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)