میں تری اک اک نشانی کیا کروں
زندگی کے درد بوڑھا کر گئے
اور بڑھاپے میں جوانی کیا کروں
تشنگی میری بجھا سکتا نہیں
اے سمندر اتنا پانی کیا کروں
کوئی بھی ردِ عمل مقصود ہے
اتنی ساری رائیگانی کیا کروں
میں ترے جذبوں کی شدت کا بیاں
صرف قاصد کی زبانی کیا کروں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اے عشق ہمیں آزاد کرو)