لگنے لگا ہے جی ہمارا
ورنہ تو جیون روٹھا ہوا تھا کوئی پیارا
باتوں میں جاگی تازگی ہے
ہونٹوں پہ مہکی زندگی ہے
سینے میں سانسوں کی خوشی ہے
آنکھوں میں خوابوں کی ہنسی ہے
پلکوں پہ اترا ہے ستارا ہے
نغمے سناتی ہیں ہوائیں
ڈھولک بجاتی ہیں گھٹائیں
دریا تکیں تو مسکرائیں
کانوں میں لہریں گنگنائیں
قدموں میں رہتا ہے کنارا
آج سے یارا ہم قسم سے
ڈریں گے نا کسی بھی غم سے
تو نے تو چھینا ہم کو ہم سے
اپنی محبت کے کرم سے
سپنوں کو شیشے میں اتارا
فرحت عباس شاہ