پیپل

پیپل
تم بھی تو کوئی پیل کے درخت ہو
اور میرے دل کی دیوار میں اُگ آئے ہو
کئی پھٹی دیوار اور وریدیں
اور ان وریدوں میں دور تک اتری ہوئی تمہاری جڑیں
یہاں تک تو پھر بھی ٹھیک ہے
یہاں سے آگے ٹھیک نہیں ہے
زرد رنگ اور جلا ہوا اور اجڑا ہوا پیپل ٹھیک ہو بھی نہیں سکتا
اور ابھی یہاں سے آگے ایک ڈر بھی ہے
جلی ہوئی شاخوں اور
اجڑی ہوئی ٹہنیوں پر اُگ آنے والے پھولوں کا ڈر
دل کی دیوار میں اُگا ہوا پیپل
پیپل کی جلی ہوئی شاخیں
اور شاخوں پر اُگا ہوا ڈر
کون سی شے اکھاڑ پھینکوں
کون سی بچا لوں
کچھ تو بولو
میرے دل کی دیوار میں اُگے ہوئے پیپل کے درخت
کچھ تو بولو
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *