تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کے، ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک گیا ہوں لبِ سڑک
کوئی قافلہ ترا رازدار نہیں ملا
کبھی کھوج ڈالے ہیں دشت دشت قطار میں
کسی ریت پر ترا انتظار نہیں ملا
کبھی دل سے دل میں گیا ہوں میں تجھے ڈھونڈتا
کبھی اک خیال کی انتہا سے گیا ہوں میں کسی دوسرے کے نشیب تک
تو کسی جگہ بھی ترا دیار نہیں ملا
میں تری تلاش سے جب ہٹا مجھے روزگار نہیں ملا
مجھے یاد ہے تو یہیں کہیں تھا
یہیں کہیں کسی یاد میں
تو یہیں کہیں کسی بھول ہی میں تو تھا بہت ہی چھپا ہوا
جو شبیہہ بن کے
چمک سی جاتی تھی راہ میں
میں بڑھا تو کوئی کھڑا ہوا سرِ رہگزار نہیں ملا۔ میں پلٹ پڑا وہیں
اپنے آپ کو نوچتا
کوئی اختیار نہیں ملا
تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کے
تھک گیا ہوں لبِ سڑک
کوئی قافلہ ترا راز دار نہیں ملا
فرحت عباس شاہ