تجھے گود بھر لوں تو دن چڑھے

تجھے گود بھر لوں تو دن چڑھے
ابھی ہنس رہا ہوں
میں پھوٹ پھوٹ کے ہنس رہا ہوں سُکھوں کی قبر میں لیٹ کے
اسے بول دو
مری قبر سے یہ ہٹا لے دھوپ کا سائباں
مرے قہقہوں سے اٹھا لے شور کی سیڑھیاں
ابھی ہنس رہا ہوں
میں ایک رات سے ہنس رہا ہوں
نظر نظر میں نمی لیے
تو اگر ندی تھا تو کیوں بھلا
مرے شہر شہر سے شہر تک تو نے اپنا رستہ بنا لیا
مجھے آرزو تھی کہ بڑھ کے تھام لوں آسماں
ترا نام لوں
تجھے گود بھر لوں تو دن چڑھے
مری گود میں مری کائنات کی خاک ہے
مری آرزوؤں کی راکھ ہے
مری ٹوٹی پھوٹی اداسیوں میں مرے مزاج کی ساکھ ہے
بڑا مان ہے
ابھی ہنس رہا ہوں
مگر یہاں بھلا کون ہنستا ہے اتنی ساری کمی لیے
کسی خواب خواب میں، آنکھ آنکھ، نظر نظر میں نمی لیے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *