تحریر بیچ کر تو کبھی بات بیچ کر

تحریر بیچ کر تو کبھی بات بیچ کر
پاتے ہیں رزق صورت حالات بیچ کر
واقف نہ تھے تجارتِ مہر و وفا سے جو
لَوٹے ہیں پائی پائی میں جذبات بیچ کر
کس منہ سے لڑ سکے گی سپاہِ ستم شعار
دشمن کے ہاتھ اپنی ہر اک گھات بیچ کر
اس بادشاہ وقت سے کیسی توقعات
بیٹھا ہے تخت پر جو عنایات بیچ کر
اپنی ہر ایک شام ہر اک رات بیچ کر
اب آ گیا ہے جینا ہمیں ذات بیچ کر
ہم بھی ہیں کیا عجب کہ کڑی دھوپ کے تلے
صحرا خرید لائے ہیں برسات بیچ کر
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *