آؤ سپنوں میں رہیں
راستے ڈھونڈیں دل کے
خواہش و خوف کے ویران جزیروں پہ کبھی رات بتائیں
تو کبھی شام کریں ہجر کے سُونے پن میں
ہجر بے حد و کنار۔ ہجرِ بے حد و حساب
اپنے مفاہیم لیے
کب بھی کبھی چشم تمنا میں سمٹ آتا ہے
اور کرتا ہے
کوئی اور ہی دنیا آباد
خواب ہی آ کے بسا کرتے ہیں اس دنیا میں
آؤ سپنوں میں رہیں گھڑیاں گزاریں کچھ تو
سانس بوجھل ہو نہ سینے پہ کوئی پتھر ہو
ہاتھ خالی ہوں نہ من خالی ہو
آنکھ بھیگے نہ کہیں درد اٹھے
آؤ بیگانوں کی اس بستی سے باہر نکلیں
آؤ اپنوں میں رہیں
آؤ سپنوں میں رہیں
راستے ڈھونڈیں دل کے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)