مری ذات میں کوئی اشکِ خانہ بدوش ہے
کبھی روح سے مرے جسم تک
کبھی دل سے چشمِ فگار تک
کبھی غم سے آہِ نزار تک
کسی ٹکڑا ٹکڑا سفر میں ہے
مری روح میں کوئی ٹوٹ ہے
کبھی زخمِ شیشہِ خواب سے
کسی زخمِ شاخِ خیال تک
کبھی رنجِ دنیا و دِل سے تیرے ملال تک
کبھی سنگِ ہجر سے خواب جیسے وصال تک
میں نہیں کہوں گا کہ جھوٹ ہے
ترا ساتھ میرے زوال تک
مِری سوچ میں کوئی درد ہے
کئی روز سے مرا مہر بھی پسِ گرد ہے
پسِ مہر بھی کوئی فرد ہے
کہ جو چہرہ چہرہ نصیب ہجر میں زرد ہے
اسے کون جا کے بتائے صحرا تو سرد ہے
مری زندگی میں جو سوگ ہے
کہیں خواہشات کا پیاس سے
کہیں مسکراتے لبوں کا چشمِ اُداس سے
کہیں بِلبِلاتے دکھوں کا
دل سے سنجوگ ہے
بڑا روگ ہے
مری ذات میں یہ جو اشک ہے
مری روح میں یہ جو ٹوٹ ہے
مری سوچ میں یہ جو درد ہے
یہ جو سوگ ہے
میں نے باندھ رکھے ہیں کاغذوں کی رداؤں میں
مرے بعد جن کو ملیں وہ بانٹیں ہواؤں میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)