افق میں دور کہیں آسمان ڈوب گیا
بھری ہیں جس طرح آنکھیں ہماری اشکوں سے
ہمیں تو لگتا ہے سارا جہان ڈوب گیا
ہوا سے رابطہ کرنے کی دیر تھی اور پھر
سمندروں میں مرا بادبان ڈوب گیا
ترا خیال ابھرتا نہیں لبوں سے مرے
مری پناہ میں مرا سائبان ڈوب گیا
یہیں کہیں کوئی رویا ہے بیٹھ کر فرحتؔ
یہیں کہیں پہ تمہارا نشان ڈوب گیا
فرحت عباس شاہ