ترا ہجر بڑا بدذات

ترا ہجر بڑا بدذات
مرے پیڑ گئے سب جل
مرے سوکھ گئے سب پھل
مرے سپنے ہو گئے شل
کوئی بھیج دکھوں کا حل
مرے اجڑ گئے سب شہر
مری رگ رگ اندر زہر
مرے دل کے اندر تھل
مری آنکھوں میں برسات
ترا ہجر بڑا بدذات
میں پھرا بہت گھر گھر
کوئی کھلا ملا نہ در
ابھی اڑتا اور مگر
مرے زخمی ہو گئے پر
مرے کالے ہوئے نصیب
مرے حصے آئی صلیب
مرے دل سے جائے نہ ڈر
مرے سر سے کٹے نہ رات
ترا ہجر بڑا بدذات
جب بدل گئے حالات
لگی قدم قدم پر گھات
ہر سمت بکھر گئے پات
ہم مَلتے رہ گئے ہاتھ
تری چاہ میں چھوڑا جھنگ
تری خاطر ہوئے ملنگ
تری خاطر بدلی ذات
کیا سورج کو بھی رات
ترا ہجر بڑا بدذات سجن
ترا ہجر بڑا بدذات
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *