کبھی دھند میں یا غبار میں
کبھی بادلوں کی قطار میں
کبھی پھول میں کبھی خار میں
کبھی آرزوئے بہار میں
کبھی جیت میں کبھی ہار میں
کسی بھولی بھٹکی اداس رت کے حصار میں
ترا ہجر پھرتا ہے لے کے ہم کو جگہ جگہ
یہ جو دل کو مٹھی میں بھینچ کر ہے رکھا ہوا
یہ جو آہ ہونٹوں میں تھام کر ہے رکھی ہوئی
یہ جو آنسو آنکھ میں جم گئے ہیں عجیب سے
کبھی دھند میں یا غبار میں
کبھی جیت میں کبھی ہار میں
ترے پیار میں
فرحت عباس شاہ