ترے دکھ نے رستہ بنا دیا

ترے دکھ نے رستہ بنا دیا
ترے دکھ نے رستہ بنا دیا
مری منزلیں تری یاد یاد میں کھو گئیں
مرا نصب العین تری تلاش میں گم ہوا
مجھے ایک لمحہِ بے زبان پہ گاڑ کے
مرا وقت تُو نے بتا دیا
مری پور پور نے گنتے گنتے برس برس
مرا اپنا آپ بھلا دیا
میں پرایا شخص بنا ہوا ہوں وجود میں
میں خود اپنی روح میں اجنبی کی طرح سے ہوں
ترے نقش نقش نے
زندگی کی کتاب سے
مرا لفظ لفظ مٹا دیا
میں کہ خود مسافرِ عشق تھا
مجھے خاک خاک سجا دیا
ترے دکھ نے رستہ بنا دیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *