ترے لیے ہی تو آنکھیں بچائے پھرتا ہوں

ترے لیے ہی تو آنکھیں بچائے پھرتا ہوں
وگرنہ آتا ہے جو کچھ نظر، نظر نہ رہے
جبین ڈھانپ لی اکثر یہ سوچ کر ہم نے
خدا کے بعد کئی لوگ بھی تو تاک میں ہیں
نئے سفر پہ نکلنا ہو تو عموماً لوگ
پرانی راہ نوردی کی گرد جھاڑتے ہیں
تھکے ہوئے ہیں ہم ایسے کہ سانس مدھم ہے
جلے ہوئے ہیں کچھ اتنے کہ راکھ اڑتی ہے
ہم آگے بڑھتے بھلا کیسے بن ترے فرحت
ترے بغیر تو موسم ٹھہرنے لگتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – محبت گمشدہ میری)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *