ترے علاوہ ترے درد بھی بسر کرتے
ہم آئے دن تجھے رنگتے غموں کے رنگوں سے
ہم آئے دن تری ویرانیاں نگر کرتے
کوئی دریچہ صفت ہی نہیں ملا ورنہ
ہم اپنی ذات کے زنداں میں کوئی در کرتے
وہ جس نے سکھ کی طرح زندگی کو بند رکھا
وہ راہ دیتا تو ہم زندگی میں گھر کرتے
بزورِ عشق بدل دیتے کائنات کے دن
مثالِ وقتِ سحر رات پر اثر کرتے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)