تری یادوں میں اکثر غم کے مارے ڈوب جاتے ہیں

تری یادوں میں اکثر غم کے مارے ڈوب جاتے ہیں
کہ دریاؤں میں دریاؤں کے دھارے ڈوب جاتے ہیں
ذرا سی لہر آئے تو کنارے ڈوب جاتے ہیں
مصیبت کے سمندر میں سہارے ڈوب جاتے ہیں
نہیں ممکن نگاہوں کی ذرا بھر گفتگو تم سے
تری آنکھوں میں میرے تو اشارے ڈوب جاتے ہیں
دلوں کے سامنے وقعت ہے کیا ان کائناتوں کی
ذرا سی آنکھ بھیگے تو نظارے ڈوب جاتے ہیں
سحر کی آنکھ کھلتے ہی فضاؤں کے سمندر میں
تمہیں معلوم تو ہو گا ستارے ڈوب جاتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *