زخم اک اور لگا
سانس پر تھک کے گری شامِ خیال
آنکھ نے خیمہ لگایا کہیں دریاؤں پر
ہنس دیا سانحہِ ویرانی
درد میں ڈوب گیا چہرہِ شب
آس نے رو کے کہا لوٹ چلو، یہ نہ ہو
راستے بھٹکے ہوئے سانپ
لپٹ جائیں تنِ نازک سے
زخم اک اور لگا
ٹوٹ گری شاخ مراد
کوکھ میں کچھ نہ رہا خواہش کو
اور پلٹتی ہوئی سنسانی سے بولا نہ گیا
کچھ بھی تو بولا نہ گیا
بول لیتی تو یہ ممکن تھا کہ دکھ بٹ جاتا۔ آس نے بین کیا
پھانس نے اور بھی بے چین کیا
میں نے دیکھا کہ ترے ہاتھ میں اک خواب ہے آبادی کا
دوسرے ہاتھ میں ویرانی ہے
روح میں سرد بیابانی ہے
اور ہواؤں میں کہیں کوئی بہانا سا ہے بربادی کا
سانس پر تھک کے گری شام خیال
آنکھ نے خیمہ لگایا کہیں دریاؤں پر
آس نے رو کے کہا خاموشی
چاند نے ہنس کے ہمیں ٹال دیا
اور لکھا
جس کو آئے گا یقیں قسموں پر
وقت کی موت نما رسموں پر
زخم اک اور لگا۔ زخم اک اور لگا
زخموں پر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)