نگاہوں کو بچھڑنا آگیا ہے
کسی دشمن کو ایسی کیا پڑی ہے
نگر کو خود اجڑنا آگیا ہے
زمانے کی ہوا دیکھو شجر کو
ہوا کے پاؤں پڑنا آگیا ہے
ہمارے صبر کو نیزے کی صورت
غموں کے دل میں گڑنا آگیا ہے
اسے ملنے نہ جائیں گے کہ ہم کو
خود اپنے دل سے لڑنا آگیا ہے
کوئی ہے داستاں گوئی میں ماہر
کسی کو قصہ گھڑنا آگیا ہے
فرحت عباس شاہ