جس قدر ظلم یہاں جائز ہے
تلخی عمر سے بڑھ کر ہے بہت
ڈوبنے والے پہ جب پھینکتے ہیں سنگ یہ دنیا والے
رونے لگتا ہے سمندر خود بھی
یہ درختوں کو جلانے والے
یہ پرندوں کو پھنسانے والے
پیار کا خون بہانے والے
یہ زمانے والے
حیف کے حیف پہ بھی شرم نہیں آتی انہیں
ہیں مشیت کی خریداری پہ تیار اگر ممکن ہو
رابطے بڑھنے لگے رستوں کے ویرانوں سے
اور بے زاری بہت بڑھ گئی انسانوں کی انسانوں سے
فرحت عباس شاہ