تم بن درد ہزار وے ڈھولا

تم بن درد ہزار وے ڈھولا
دوری سے نا مار وے ڈھولا
کبھی کبھار اپنی آنکھوں سے
تنہا تنہا بہنے والے
آنسو کیے قطار وے ڈھولا
تم بن درد ہزار وے ڈھولا
شرم حیا بھی آڑے آئے
صبر زباں پر جم جم جائے
دکھڑے کریں پکار وے ڈھولا
تم بن درد ہزار وے ڈھولا
تُو منزل، تُو دَر، تُو رستہ
تیری ذات کا پھیل گیا ہے
چاروں سمت خصار وے ڈھولا
تم بن درد ہزار وے ڈھولا
آتش سی کوئی بھری لہو میں
سینہ کر گئی دھواں دھواں
من بیٹھا من ٹھار وے ڈھولا
تم بن درد ہزار وے ڈھولا
نیندیں شب بھر پاس نہ آئیں
دھڑکن دھڑکن بوجھ نرالا
کر بیٹھے ہیں پیار وے ڈھولا
تم بن درد ہزار وے ڈھولا
ساری عمر ریاضت کر کے
ہم نے تو بس ایک ذرا سا
واپس کیا اُدھار وے ڈھولا
تم بن درد ہزار وے ڈھولا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – من پنچھی بے چین)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *